از
قلم:محمد نفیس القادری امجدی)مدیر اعلیٰ، سہ ماہی عرفان رضا
مرادآباد(
آج
رفتار زمانہ اپنی تیز پرواز کے ساتھ مستقبل کی طرف گامزن ہے۔یہ شمس و قمر جو مسلسل
اپنے منازل کی طرف رواں دواں ہیں، جنہوں نے نہ جانے کتنی نسلوں کو سنورتےاور
تباہ ہوتے دیکھا ہے،اس بات پر شاہد ہیں کہ ہمارے آباءو اجداد نےمادر ہند کی عظمت و
وقار پر اپنی جانیں نچھاور کرکے سرخ روئی حاصل کی ہے ۔جزبۂ جہاد سے پر شوق علماء
کرام نے،ظالموں کی زنجیریں اور تیر و تفنگ، اس لیے برداشت کئے تاکہ آنے والی نسلیں
آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔ لیکن آج انکی اس مظلومیت کا احساس کس کو ہوگا جو
صرف ہمارے لیے تھی، ان کا ذکر کون کرے گا؟جن کی نالہ و شیون اور آہِ سحر گاہی ہوا
میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔ جنکی چیخیں احسان فراموشی کی اینٹوں میں دب کر رہ گئیں۔
ظاہر ہے ہم پر ہی لازم ہے کہ آج ان بھولی بسری ہستیوں کی آہ وفغاں کی قیمت، تشکر
کے آنسوؤں سے اداکریں یہ ہمارافرض ہے۔آزادی میں جن علماء کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
آج ہماری گردنیں ان کےاحسانات سے زیر بار ہیں کتب تاریخ کے مطالعےسے جو
کچھ حاصل ہوا اس کا خلاصہ حاضر خدمت ہے۔
جنگ
آزادی ہند۱۸۵۷ء میں علماء اہل سنت اور مشائخ طریقت کا نہایت
بنیادی کردار رہا ہے ۔بلکہ اگر یہ کہاجائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ شمالی ہند
انگریزوں کے خلاف مسلم رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی فضا برپا
کرنے کا بنیادی کام انہیں کی قیادت و سربراہی میں ہوا ،ان مجاہدین میں علامہ فضل
حق خیرآبادی (م۱۲۷۸ھ)مفتی صدرالدین خان آزردہ دہلوی(م1285ھ)مولانا
سید احمد اللہ شاہ مدراسی(م 1274ھ 1858ء)مفتی عنایت احمد کاکوروی(م 1279ھ) مولانا
رحمت اللہ کیرانوی(م 1308ھ) مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا ڈاکٹر وزیرخاں اکبرآبادی(م1289ھ1873ء)حضرت
علامہ مفتی کفایت علی کافی مرادآبادی(م 1274ھ1858ء) مولاناوہاج الدین مرادآبادی(م1274ھ1858ء)
مولانا رضا علی خاں بریلوی(م1286ھ1869) مولانا امام بخش صہبانی دہلوی (م1273ھ
1857ء) مفتی مظہر کریم دریابادی، حکیم سعید اللہ قادری(م 1325ھ)اور نواب مجو خان
مرادآبادی وغیرہ کے انقلابی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
ان سب
ممتاز ہستیوں کے درمیان مولانا سید کفایت علی کافیؔ، مولانا وہاج الدین،حضرت
شاہ جی غلام بولن سیوہاروی علیہ الرحمہ اورنواب مجو خان مرادآبادی۔ یہ ایسے نام ہیں
جنہوں نے مرادآباد سے انگریزی راج کا تختہ الٹنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
(۱)حضرت
علامہ مولانامفتی کفالت علی کافی مرادآبادی:
حضرت
علامہ کافی، موضع نگینہ،ضلع بجنور،یوپی، انڈیا کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن
تحصیل علم کے بعد آپ نے مرادآباد کو اپنا مسکن بنایا، پیشے کے اعتبار سے حکیم حاذق
اور مدرس و مبلغ تھے، محراب و منبر کی دنیا میں اپنے علم و تصانیف اور فن تقریر کے
حوالے سے ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔
حضرت
علامہ کافی نے حدیث رسول ﷺ کی تعلیم شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد، شاہ ابوسعید
مجددی، سے حاصل کی اور شاعری میں فنِ سخن کے استاد شیخ مہدی علی خان ذکیؔ مراد
آبادی کے چار مشہور تلامذہ میں شمار ہوتے تھے، ان چار میں معروف مفسر حضرت علامہ سید
نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان کے والد مولانا سید معین الدین
نزہتؔ، مولوی محمد حسین تمناؔ، مولوی شبیر علی تنہابھی شامل ہیں۔
حضرت
مولانا کافی کی جملہ تصانیف منظوم ہیں، ان میں نعتیہ کلاموں پر مبنی دیوان کافیؔ،
مثنوی خیابان فردوس، نسیم جنت، مولود بہار، حلیہ شریف، جذبہ عشق، مجموعہ چہل حدیث،
شمائل ترمذی کا ترجمہ بہار خلد، اور ۱۸۴۱ء میں
حجاز مقدس سے واپسی پر لکھا گیا سفرنامہ تجملِ دربارِنبی کریم ﷺ شامل ہیں ،اب ان میں
سے بیشتر کتب نایاب ہیں یا کسی قدیم لائبریری میں مل سکتی ہیں، دیوان کافی اور
مولودِ بہار البتہ آرکائیو پر بھی دستیاب ہیں۔
زیر
نگاہ مضمون حضرت مولانا کافیؔ کی داستان حریت سے متعلق ہے لیکن اصل میں وہ ایک فوجی
نہیں بلکہ ایک منفرد عاشق رسول ﷺ اور دینی شخصیت تھے، ان کا سارا کلام نعت شریف پر
مبنی ہے، اسلئے برمحل ہے کہ ان کی نعت گوئی پر اہل علم کی کچھ آراء بھی پیش کرتا
چلوں۔عبد الغفور نساخؔ نے، تذکرہ سخنِ شعرا میں لکھا ہے کہ مولوی کفایت علی مراد
آبادی ایک صاحبِ علم و فضل اور زہد و تقویٰ رکھنے والے نعتیہ شاعر ہیں، حکیم غلام
قطب الدین باطنؔ اکبر آبادی نے گلشنِ بے خزاں، اور عبد الحئی صفاؔ بدایونی نے
تذکرہ شمیمِ سُخن میں حضرت کافیؔ کا ذکر بہت گرانقدر الفاظ میں کیا ہے۔
ایک نعت
کے چند اشعار:
بدن تھا
آپ کا کانِ تجلی
عیاں
چہرے پہ تھی شانِ تجلی
رسول
اللہ کی نُورِ جبیں کو
بجا ہے
گر کہیں جانِ تجلی.
تَصوُّر
کس کی صورت کا بندھا ہے
کہ چھایا
دل پہ سامانِ تجلی
پروفیسر
سید یونس شا ہ کے تذکرہ نعت گویانِ اردو، ہمارے لیلپور کے مایہ ناز استاد و شاعر
پروفیسر ریاض مجیدصاحب کے پی ایچ ڈی کے مقالہ اردو میں نعت گوئی، ماہنامہ نقوش
لاہور کے رسولﷺ نمبر، راجہ رشید محمود صاحب کے انتخاب نعت کائنات اور شفیق بریلوی
صاحب کے انتخاب ارمغانِ نعت میں حضرت کافیؔ کا منتخب کلام اور ان کیلئے داد و تحسین
کا ہدیہ بھی موجود ہے۔بالخصوص راجہ رشید محمود صاحب نے بہت اچھا کیا کہ اپنی ادارت
میں چھپنے والے “ماہنامہ نعت” کا ایک خصوصی ایڈیشن حضرت کافیؔ کے منتخب کلاموں پر
شائع کیا ہے اور اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان نے مولانا
کافی کے عشق رسول کی حرارت محسوس کرتے ہوئے آپ کی بارگاہ میں یوں خراج عقیدت پیش کیا:
پرواز میں
جب حدیث شہ میں آؤں
تاعرش
پرواز فکر رسا میں جاؤں
مضمون کی
بندش تو میسر ہے رضا
کافیؔ
کا دردِ دل کہاں سے لاؤں
اور صرف
اتنا ہی نہیں بلکہ امام اہلِ سنت نے تو حضرت مولانا کافی کو سلطان نعت گویاں سے
تعبیر کرکے آپ کی شہرت و عظمت کا پرچم چار دانگ عالم میں لہرایا آپ فرماتے ہیں:
مہکا ہے
مرے بوۓ دہن سے
عالم
ہاں نغمۂشیریں
نہیں تلخی سے بہم
کافی
سلطان نعت گویاں ہے رضا
ان
شاءاللہ میں وزیراعظم
(جنگ
آزادی اور وطن کے جانباز ص۶۹)اعلیٰحضرت
نے حضرت کافیؔ کے مختلف کلاموں کی زمین میں بہت سا کام کیا ہے، ان کا مشہور کلام۔”یا
الہیٰ ہر جگہ تیری عطاکا ساتھ ہو“یہ بھی حضرت کافیؔ کے درج ذیل کلام پر ان کی تظمین
ہے۔
یا الٰہی
حشر میں خیر الوریٰ ﷺ کا ساتھ ہو
رحمتِ
عالم
محمد مصطفیٰ ﷺ کا ساتھ ہو
مرادآباد
کے معززسادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔
جہاد
آزادی میں پوراپورا حصہ لیا، امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ
جب تحریک آزادی ہند شروع ہوئی گویا مولانا کافی رحمۃ اللہ علیہ کا ہاشمی خون پہلے
سے ہی جزبہ شہادت سے سرشار تھا۔ (جنگ آزادی اور وطن کے جانباز،ص:۷۰)مولانا
کافی نے مرادآباد میں فرنگی سامراج کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔
جنگ
آبادی1857ء کے دوران آپ نے انگرزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ جنرل بخت روہیلہ
کی فوج میں کمانڈر ہو کر دہلی آئےاور اپنی بہادری کے جوہر رکھائے۔ دشمن کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچایا۔
بہادر
شاہ ظفر نے کئی بار آپ کو بلا کر مشورے لئے، دہلی میں جب نظام درہم برہم ہوا تو
جنرل بخت کے ہمراہ بریلی شریف پہنچے، یہاں مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی بھی موجود
تھے انکی معیت میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمن کا مقابلہ کرتے رہے، اس
کے بعد احمد اللہ شاہ اور جنرل بخت کے ہمراہ مرادآباد پہنچے، جہاں آپ کو صدر
الصدور منتخب کیا گیا، اور آپ نے شرعی احکام جاری کیے۔ رامپور اور مرادآباد کے
مختلف معرکے آپ نے سر کیے۔ مختلف محازوں پر انگریزوں کو شکست دی۔ آخر میں انعام کے
ایک لالچی غدار فخر الدین کلال نے مولانا کافی کی جاۓ پناہ کی
مخبری اس شرط پر کی کہ اسے مولانا کافی کی ساری جائداد انعام کے طور پر دی جائے،
اس کم بخت کی نشاندہی پر انگریزوں نے ضلع مرادآباد کی تحصیل حسن پور سے
گرفتار کر لیا۔اور ساری جائداد اس لالچی مخبر کو دے دی۔ اور مولانا کافی کو
قید میں ڈال دیا گیا، جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی، زخموں پر مرچیں چھڑکیں، غرض
یہ کہ اپنے مقصد سے برگشتہ کرنے کےلیے ہر حربہ انگریزوں نے استعمال کیا، مگر ظلم
کا کوئی زخم بھی اس مرد مجاہد کے پایۂ استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکا، جب انگریز
مایوس ہو گئے۔۳۰؍اپریل۱۸۵۸ءمطابق۶؍رمضان
المبارک ۱۲۷۴ھ میں مقدمہ قائم ہوا اور اسی دن پھانسی کی
سزا تجویز ہو گئی۔ پھانسی کی اطلاع ہونے پر بہت خوش ہوئے، چہرے سے کسی ملال اور
خوف کا خیال نہ ہوا اور آنکھوں کے مجاہدانہ تیور میں کوئی کمی نہ آئی۔ چنانچہ ۲۷؍رمضان
المبارک کی مقدس تاریخ تھی، جمعرات کا دن تھا، اور عصر کا وقت، مرادآباد کے ایک
چوراہے پر روزے کی حالت میں آپ کو لایا گیا تو آپ بآواز بلند بڑے اطمینان سے
بارگاہ رسالت مآبﷺ میں ہدیۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنا یہ کلام پڑھا تھا۔
کوئی گل
باقی رہے گا نے چمن رہ جائے گا
پر رسول
اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
تو
مرادآباد چوک میں برسرعام اس عاشق رسول اور مجاہد حریت کو سولی پر ٹکا دیا،یہ
واقعہ ۳۰؍اپریل۱۸۵۸ءکو
واقع ہوا ۔(سہ ماہی امجدیہ۲۰۱۱ءگھوسی،
ص:۲۲،۲۱/جنگ آزادی اور وطن کے جانباز، ص :۶۸،۷۱)اور
رات کی تاریکی میں جیل کے قرب و جوار میں دفن کر کے زمین ہموار کر دی گئی تاکہ نام
و نشان باقی نہ رہے۔مولانا عمر نعیمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے تقریباً۳۵؍
سال بعد اس علاقے سے ایک سڑک نکالی جا رہی تھی کہ ایک مزدور کے کدال سے حضرت
مولانا کافیؔ شہید کی قبر کھل گئی۔
یہ خبر
جب شہر میں پھیلی تو لوگ جوق درجوق زیارت کیلئے آنے لگے، کہ جسم ویسا ہی رکھا تھا
شہر کے بزرگ لوگوں نے چہرہ مبارک دیکھ کر شناخت کرلی، اور پھر جسم مبارک کو دوسری
جگہ عقب جیل میں منتقل کردیا گیا۔ (ماہنامہ اشرفیہ ص 34 فروری 1982/جنگ آزادی اور
وطن کے جانباز ص:۷۲)