عصا نامہ!!

 

عصانامہ !!

✍️ مفتی غلام مصطفےٰ نعیمی۔روشن مستقبل دہلی


عصا (Stick)جسے اردو میں لاٹھی یا چھڑی بھی کہا جاتا ہے، محض سہارے کا آلہ ہی نہیں بلکہ حکمت، بزرگی ،قیادت، اور معجزات کا نشان بھی رہا ہے۔یہ چھوٹا سا آلہ انبیائے کرام کی سنت، شعرا کی تشبیہ، اور اہلِ علم و تقویٰ کا شعار رہا ہے۔عصا طاقت و قوت، بزرگی و قیادت اور علم و حلم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔سماجی سطح پر معزز اور محترم افراد اس کا استعمال کرتے آئے ہیں۔اولیا، علما اور شیوخ اکثر عصا رکھتے تھے جو ان کی سنجیدگی و وقار کی علامت ہوتا تھا۔یوں کہہ لیں کہ عصا اپنے آپ میں ایک ایسی چیز ہے جو کثیر الفوائد بھی ہے اور کثیر الجہات بھی۔مذکورہ فوائد کے علاوہ یہ شریر اور مفسد چیزوں سے انسان کی حفاظت بھی کرتا ہے۔اس لیےدورِ حاضر میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

اسلامی ادب اور عصا

  عصا کے متعلق اسلامی ادب میں بہت ساری کہاوتیں اور محاورے استعمال ہوتے آئے ہیں جو عصا کی ہمہ جہتی اور افادیت کو بیان کرتے ہیں۔ذیل میں ہم چند کہاوتیں اور محاورے پیش کرتے ہیں جس سے اس کی اہمیت مزید ظاہر ہوگی:

🔸 عصا کے سہارے چلنا۔

  یعنی کمزوری یا محتاجی کی علامت، جب کوئی شخص کمزوری کے باعث دوسروں پر انحصار کرتا ہے اس وقت کہا جاتا ہے کہ فلاں انسان عصا کے سہارے چلتا ہے۔اس مثال کا اطلاق حقیقت اور مجاز دونوں پر کیا جا سکتا ہے۔

🔹عصا اُٹھا کر بولنا۔

 یعنی سختی اور طاقت کے ساتھ بات کرنا۔عصا صرف کمزوروں کا سہارا ہی نہیں بل کہ طاقت کا اظہاریہ بھی ہوتا ہے جب کوئی انسان اپنے عمل یا قول میں سختی و طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے تو کہا جاتا کہ وہ شخص عصا اٹھا کر بات کرتا ہے ،اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

🔸عصا نہ رہتا، تو گدھے کی عزت نہ ہوتی۔

 یعنی اختیار اور طاقت ہو تو لوگ گدھے کی بھی عزت کرتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں کہہ لیں تو عصا روپی طاقت اغیار کو آپ کی عزت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔طاقت نہ ہو تو انسان دشمنوں کے سامنے بے وقعت اور بے عزت ہوجائے۔اگر سماجی اعتبار سے معزز ہونا ہے تو طاقت کا ہونا بے حد ضروری ہے طاقت کے بغیر کوئی آپ کو عزت دینے آسانی سے تیار نہیں ہوتا۔

🔹عصائے پیری

یعنی بڑھاپے کا سہارا۔ یہ محاورہ اس بیٹے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو بڑھاپے میں اپنے ماں باپ کا سہارا بنتا ہے۔ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور ان کی کمزوری کو اپنی جوانی و طاقت کے ذریعے دور کرکے ان کی خدمت کرتا ہے۔

🔸کاسہ بھر کھانا، عصا بھر چلنا۔

یعنی طاقت کے مطابق ہی کام کرنا، اپنی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ اٹھانا۔

روزمرہ کی زندگی میں عصا کا استعمال

روز مرہ کی زندگی میں بھی عصا خوب استعمال کیا جاتا ہے۔یہاں چند بنیادی پہلوؤں کا ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہوگا:

🔸 بوڑھوں کے لیے سہارا

عصا عمر رسیدہ اور بزرگ افراد کے لیے چلنے کا سب سے مضبوط سہارا ہوتا ہے، جو توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

🔹حفاظت کا ذریعہ

  بعض خِطوں میں لاٹھی کا استعمال دفاعی ہتھیار کے طور پر بھی ہوتا ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں۔پرانے زمانے میں اسے ایک فن کا درجہ حاصل تھا۔اس زمانے میں لوگ کوشش کرتے تھے کہ لاٹھی چلانا ضرور سیکھ لیں کیوں کہ یہ فن مصیبت کے وقت دشمنوں سے حفاظت کے کام آتا تھا۔لاٹھی چلانا ایک ایسا ہنر ہے جس کے ذریعے کئی لوگوں کو بہ آسانی قابو کیا جا سکتا ہے۔

🔸مدد کا ذریعہ

  عصا سہارے اور حفاظت کے ساتھ ساتھ ساتھ کئی دوسرے کاموں میں مدد کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔مثلاً بلندی پر کوئی چیز رکھی ہے تو لاٹھی کا استعمال کر لیا۔دریا سے گزرتے ہوئے پانی کا اندازہ لگا لیا۔پہاڑی یا بلند جگہ پر چڑھتے ہوئے استعمال کرلیا وغیرہ وغیرہ۔

نبی کریمﷺ اور عصا کا استعمال

  ہمارے آقا حضور سید عالم ﷺ نے بھی عصا کو مختلف کاموں کے لیے خوب استعمال فرمایا ہے۔نماز کے لیے سُترہ بنانے، صفیں درست کرنے، بوقت خطبہ استعمال کرنے اور اس کے سہارے چلنے جیسے کاموں میں عصا استعمال فرماتے تھے۔حضرت عبد اللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں:۔كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خرج إلى العيد يحمل عنزة، فتوضع بين يديه فيصلي إليها۔(رواہ البخاري: 944)

نبی کریم ﷺ جب عید کے لیے نکلتے تو ایک چھوٹی نیزہ نما لاٹھی (عنزہ) ساتھ رکھتے، جو آگے رکھ دی جاتی اور آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرماتے۔

حضرت سعد بن وقاص روایت کرتے ہیں:۔العصا من السنة۔(رواہ البيهقي في السنن الكبرى) ہم عصا رکھنے کو سنت شمار کرتے تھے۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں عصا رکھنے میں چھ فضیلتیں ہیں:

1۔انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے

2۔صُلحا کی زینت ہے

3۔دشمنوں کے خلاف ہتھیار ہے

4۔کمزورں کا مددگار ہے۔

5۔منافقین کے لیے پریشانی کاباعث ہے۔

6۔عبادت میں زیادتی کاباعث ہے( تفسیر قرطبی)

حجاج بن یوسف اور  دیہاتی کا عصا

  حجاج بن یوسف ثقفی(م ۹۵ھ) ایک سخت گیر گورنر کے طور پر مشہور تھا۔ایک بار حجاج بن یوسف کی ملاقات ایک دیہاتی انسان سے ہوئی۔اعرابی کے ہاتھ میں عصا دیکھ کر حجاج نے اس سے عصا کے متعلق پوچھ تاچھ کی۔حجاج کی سخت گیر طبیعت اور انتظامی مصروفیت کے مد نظر ایک اعرابی کی لمبی بات سننا حجاج کی طبیعت سے میل نہیں کھاتا لیکن اس اعرابی نے جس انداز میں عصا کے فوائد شمار کرائے ،اس نے حجاج کو طویل گفتگو سننے پر بھی مجبور کر دیا۔ذیل میں آپ بھی حجاج بن یوسف اور اس اعرابی کا پر لطف مکالمہ پڑھیں اور تحت اللفظ عصا کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

حجاج نے اس اعرابی سے پوچھا:

🔸 ما بيدك؟ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟

اعرابی نے جواب دیا:

🔹قال هي عصاي أركزها لوقت صلاتي۔یہ میری لاٹھی ہے، جسے میں نماز کے وقت زمین میں گاڑ کر قبلے کا رخ معلوم کرتا ہوں۔

🔸وأعدها لأعدائي۔اپنےدشمنوں کے لیے ہتھیار بناتاہوں۔

🔹وأسوق بها دابتي۔اس سے اپنی سواری کو ہانکتا ہوں۔

🔸وأقوى بها على سفري۔سفر میں اس کے ذریعے طاقت حاصل کرتا ہوں۔

🔹وأعتمد عليها في ذهابي وايابي۔آنے جانے میں اس پر سہارا لیتا ہوں۔

🔸یتسع بها خطوي۔یہ لاٹھی میری چال کو لمبا اور تیز کرتی ہے۔

🔹وأثب بها على النهر۔نہر پر چھلانگ لگانے میں مجھےمدد دیتی ہے۔

🔸وتؤمن العثرة ۔گھٹنوں کے بل گرنے سے بچاتی ہے۔

🔹وأتقي بواسطتها شر العشرة۔برے لوگوں کے شر سے حفاظت کرتی ہے۔

🔸والقي عليها كسائي فتقيني الحر۔اس پر چادر ڈال کر گرمی سے بچتا ہوں۔

🔹وتجنبني القر۔اسے بچھا کر زمین کی سختی سے بچتا ہوں۔

🔸وتدني الى مابعد عني۔یہ دور کی چیزوں کو قریب کر دیتی ہے۔

🔹وأقرع بها الأبواب وأضرب بها الكلاب۔دروازے کھٹکھٹانے اورکتے بھگانے کے کام آتی ہے۔

🔸وتنوب عن الرمح في الطعان۔لڑائی میں نیزے کی جگہ کام آتی ہے۔

🔹وعن السيف في منازلة الأقران۔دشمنوں سے تلوار کی طرح لڑنے میں مدد دیتی ہے۔

🔸وأهش بها على غنمي ولي فيها مآرب أخرى۔اپنی بکریوں کو ہانکنے میں بھی یہی کام آتی ہے۔اور بھی بہت سے فائدے ہیں جو میں اس سے لیتا ہوں۔(تفسير القرطبي ( 11/ 126 )

قارئین کرام!اس اعرابی کی ذہانت ، انداز بیان اور اس کی فکری گہرائی پر غور فرمائیں کہ ایک عام سے دیہاتی بندے نے لاٹھی رکھنے کے کتنے فوائد گنا ڈالے۔عام طور دیہاتی انسان لاٹھی کو جانوروں وغیرہ کے لیے استعمال کرتا ہے اور یہی اس کے استعمال کا بنیادی مقصد بھی ہوتا ہے لیکن اس اعرابی کی غیر معمولی ذہانت اور اس کی فکری وسعت نے حجاج جیسے سخت گیر گورنر کو بھی ساکت و جامد کر دیا اور وہ سراپا حیرت بنے اس اعرابی کی باتیں سنتا رہا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ اعرابی کا نقطہ نگاہ اس قدر گہرا اور وسیع ہے کہ اگر اس کے ایک ایک نکتے پر کلام کیا جائے تو اس میں حکمت ودانائی کے کئی پہلو نظر آئیں گے۔

دور حاضر کی مشکلات اور عصا کی اہمیت

دور حاضر میں جہاں کہنے کو سیفٹی اور سیکورٹی کے معاملات بہتر ہوئے ہیں وہیں لوگوں میں لا قانونیت اور فتنہ و فساد کا مزاج بھی خوب بڑھا ہے۔آئے دن لوٹ پاٹ، چھینا جھپٹی، راہ چلتے مال لوٹنا ، اکیلا دیکھ کر حملہ کرنے جیسے واقعات بھی مسلسل بڑھے ہیں۔"آوارہ اور پاگل جانوروں" کے حملہ کرنے جیسے حادثات بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔سنسان راستوں اور اکیلے انسان پر "آوارہ کتوں" کے جھنڈ حملہ کر دیتے ہیں، ایسے حالات میں خالی ہاتھ ہونا انسان کو یوں ہی آدھا کمزور بنا دیتا ہے باقی کسر غنڈے موالی اور جانور کر دیتے ہیں۔ایسے حالات میں انسان کے ہاتھ میں صرف عصا کا ہونا ہی "آوارہ جانوروں" کو کنٹرول میں رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ رات کے سناٹے میں خالی ہاتھ انسان کو دیکھ کر گلی کا معمولی سا کتا بھی کاٹنے کو دوڑتا ہے، لیکن اگر ہاتھ میں ڈنڈا ہو تو جھنڈ کےجھنڈ بھی دور سے ہی بھونکنے کی رسم ادا کر لیتے ہیں، قریب آنے کی جرأت بھول کر بھی نہیں کرتے، کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قریب گیے تو عصا کے غضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ تو عمومی نوعیت کے حالات ہیں، علماے کرام اور اسلامی وضع قطع والے افراد مزید حساس اور خطرناک حالات کا سامنا کرتے ہیں۔اسلامی وضع قطع ہی نفرت اور حملے کا بنیادی سبب بنی ہوئی ہے، ایسے میں عصا کا استعمال نہ صرف علما کا وقار بڑھائے گا بل کہ بوقت ضرورت "فرعونی جادوگروں" کے سحر و آسیب کے خاطر خواہ علاج میں بھی مفید ثابت ہوگا۔اس لیے علما کو چاہیے کہ رسول کریم ﷺ کی اس پیاری سنت کو اختیار کریں اور اس کے درجنوں فوائد کا تجربہ کرکے معاملات کو آسان اور بہتر بنائیں۔

نہ گفتگو سے نہ وہ عصا سے جائے گا

عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا

مورخہ:11 صفر المظفر 1447ھ6 اگست 2025 بروز بدھ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی