شارح بخاری : گھوسی کا افتخار ، اہلِ سنت کا تاجدار
✍️: شمیم رضا اویسی امجدی
مشرقی اُتر پردیش کا مردم خیز قصبہ گھوسی اپنی قدامت، علمی عظمت اور دینی روایتوں کے باعث ہر دور میں ممتاز رہا ہے ، یہاں کی خاک نے ایسے آفتاب و ماہتاب پیدا کیے جن کی روشنی نے ایک عالم کو منور کیا، شیرازِ ہند جونپور کے سائے میں پروان چڑھنے والا یہ قصبہ شرقی سلطنت کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک ایک علمی مرکزیت کا حامل ہے، اور صدیوں سے علم و روحانیت کی نہریں یہاں سے جاری و ساری ہیں ،
یہی وہ خطہ ہے جس نے علامہ غلام نقشبند گھوسوی جیسی عبقری شخصیت کو جنم دیا، جس نے صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان جیسے عظیم فقیہ پیدا کیے جن کے تفقہ پر وقت کے مجدد، امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کو بھی ناز تھا ، یہ وہی خطہ ہے جہاں شہزادہء صدر الشریعہ سید المحدثین والمفسرین علامہ عبد المصطفیٰ ازہری نے آنکھیں کھولی ، یہ وہی مبارک سرزمین ہے جسے حضور شیخ العلماء، خیر الاذکیاء اور فخر المحدثین جیسی عظیم ہستیوں نے اپنے وجود سے شادابیت بخشی اور اسی سرزمین پر علم و فن کا وہ آفتاب بھی طلوع ہوا جو "فقیہِ اعظم ہند، شارحِ بخاری، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ والرضوان " کے نام سے آج بھی اہلِ سنت کی آنکھوں کا نور، دلوں کا سرور، اور سروں کا تاج بنا ہوا ہے ،
حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ والرضوان نے 1920ء میں اس جہانِ گیتی پر قدم رکھا ، ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کی، جہاں قرآنِ مجید ناظرہ اور اردو کی بنیادی تعلیم سے اپنے علمی سفر کا آغاز فرمایا، فطری ذکاوت، علمی شغف کے باعث ١٣٥٣ھ میں مدرسہ مصباح العلوم، پرانی بستی مبارکپور میں داخلہ لیا ، یہ وہی ادارہ ہے جو بعد میں ترقی پا کر الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کے نام سے عالمِ اسلام میں شہرت یافتہ ہوا ،
تقریباً آٹھ سال آپ نے یہاں مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی، پھر ١٣٦١ھ میں دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف کا رخ کیا، جہاں آپ نے درسِ نظامی کی تکمیل کی، اور ١٣٦٢ھ میں سند و دستار سے سرفراز کیے گئے، یہ وہ زمانہ تھا جب آپ کی علمی و روحانی شخصیت گویا ایک نئی تابانی کے ساتھ اُفق عالم پر طلوع ہو رہی تھی ، فراغت کے بعد آپ نے ہندوستان کی مختلف درسگاہوں کو اعزاز بخشا جن میں مدرسہ بحر العلوم مئو ، مدرسہ شمس العلوم گھوسی ، مرکزی دار العلوم مظہر اسلام بریلی شریف اور الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کے نام قابلِ ذکر ہیں
یوں تو آپ کو مختلف علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل تھی لیکن فقہ و افتا کے باب میں آپ کو جو بلندی عطا ہوئی، وہ اکابر اہلِ سنت کی صحبت کا فیض تھا، آپ نے حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی نگرانی میں مکمل ایک سال فتویٰ نویسی کی عملی تربیت حاصل کی ، اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کی بارگاہ میں تقریباً گیارہ سال تک فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دیے اور افتا کے باب میں ایسی مہارت حاصل کر لی کہ آنے والے دور میں یہی فن آپ کی ایک خاص شناخت بن گیا،
1976ء میں آپ نے الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں صدر شعبۂ افتاء کی حیثیت سے منصب سنبھالا اور آخری دم تک شعبہء افتا کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے، آپ کی زندگی کا ایک عجیب و حیرت انگیز باب یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں تقریباً ایک لاکھ فتاویٰ تحریر فرمائے جو ماضی قریب کا ایک عظیم علمی ریکارڈ ہے جو محض عددی کارنامہ نہیں بلکہ فقہی بصیرت، دینی حمیت اور شبانہ روز علمی ریاضت کا زندہ ثبوت ہے،
اہلِ علم جانتے ہیں کہ حضورمفتی اعظم ہند جیسے جلیل القدر فقیہ اگر کسی ایک فتوے کی تصدیق کر دیں تو وہ صاحبِ فتویٰ کی زندگی کا حاصل بن جاتا ہے، مگر حضور شارحِ بخاری کی فقہی عظمت دیکھیے کہ آپ کے چھ ہزار سے زائد فتاویٰ ایسے ہیں جن پر خود حضور مفتی اعظم ہند نے تصدیق و توثیق کی مہر ثبت فرمائی ، یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو پورے برصغیر میں محض آپ ہی کا خاصہ ہے ، حضور مفتی اعظم ہند آپ پر حد درجہ اعتماد فرماتے تھے یہی وجہ ہے کہ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے ایک موقع پر فرمایا کہ "شارح بخاری حضور مفتیِ اعظم ہند کی بارگاہ میں ایک مدت تک مستفیض ہوتے رہے یہاں تک کہ ان کے فن کے رازداں ہو گئے " اور اسی غیرمعمولی شان کو دیکھتے ہوئے علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ جیسی کئی اہم شخصیات نے آپ کو "فقیہِ اعظمِ ہند" کے لقب سے سرفراز فرمایا ، جس کا اعلان باضابطہ طور پر 1999ء میں عرسِ قاسمی کے موقع پر کیا گیا ،
علم فقہ کے علاوہ حدیث کے باب میں بھی آپ نے عظیم علمی کارنامہ انجام دیا جس پر آج بھی اہل علم کو ناز ہے ، آپ نے صحیح بخاری کی سات جلدوں پر مشتمل مبسوط و عالمانہ شرح تصنیف فرمائی جس کا نام "نزہۃ القاری" رکھا ، اس عظیم شاہکار کی تکمیل پر رضا اکیڈمی، ممبئی نے بنام "جشنِ تکمیلِ بخاری" ایک عظیم الشان تقریب منعقد کی، جس میں آپ کو چاندی سے تولا گیا یہ وہ لمحہ تھا جب علم اپنی بلندی پر، عقیدت اپنی انتہا پر، اور اہلِ سنت کا فخر اپنے عروج پر تھا اور یہ لمحہ ایک عظیم تاریخ رقم کر رہا تھا ،
آپ نے فتویٰ نویسی ، تبلیغی اسفار اور تدریسی مصروفیات کے باوجود مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنے عہد کو کئی ایک کتابی تحفہ پیش کیا ، جن میں چند اہم تصنیفات کے نام درجہ ذیل ہیں :
(١) اشرف السیر(٢) اسلام اور چاند کا سفر(٣) منصفانہ جائزہ (٤) فتنوں کی سرزمین نجد یا عراق (٥) امام احمد رضا اور مسئلہ تکفیر(٦) اشکِ رواں
یہ وہ علمی خزانے ہیں، جو آپ کی وسعتِ مطالعہ، جودتِ فکر اور عقلی استحضار کے آئینہ دار ہیں،
حضور شارحِ بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان کی زندگی کا ایک نمایاں باب اِحقاقِ حق اور ابطالِ باطل بھی ہے ، آپ نے نہ صرف قلم کے ذریعہ بلکہ مناظرہ اور خطابت کے میدان میں بھی اہلِ باطل کا بھرپور تعاقب فرمایا ، آپ کی شخصیت کا رعب ایسا تھا کہ بدمذہبوں کے قدم ڈگمگا جاتے، اور جب آپ کا لہجہ گونجتا تو دل دہل جایا کرتے، ہندوستان کے کسی بھی گوشے میں اگر مسلکِ اہلِ سنت پر حملہ ہوتا، تو تحفظِ عقائد کا عَلم اکثر و بیشتر صرف ایک ہی ہاتھ میں دکھائی دیتا،
"شارحِ بخاری، مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ والرضوان "
آپ بلاشبہ ان بزرگوں میں سے تھے جن کی زندگی خود ایک تحریک، ایک حجت، اور ایک مشعلِ راہ تھی،
مگر افسوس 6 صفر المظفر ١٤٢١ھ، مطابق 11 مئی 2000ء، بروز جمعرات بعد نمازِ فجر، یہ آفتابِ علم و فضل اپنے لاکھوں ارادت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا لیکن اپنی کتابوں، فتاویٰ، خطبات، ملفوظات اور فقہی فیصلہ جات کی شکل میں ایک ایسا چراغِ علم روشن کر گیا جو رہتی دنیا تک مسلکِ اہلِ سنت کے مسافروں کو راہ دکھاتا رہے گا ، گویا وہ جاتے جاتے یہ کہہ گیا کہ
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
رب قدیر ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے فیضان سے اہل سنت کو ہمیشہ شادکام فرمائے ،آمین
از قلم :
شمیم رضا اویسی امجدی
خادم التدريس : طیبۃ العلماء
جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی :