ٹیچر ( استاذ ) بچوں کو مار سکتے ہیں یا نہیں، اور مار سکتے ہیں تو كتنا ؟
السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ میرا سوال یہ ہے کہ ٹیچر ( استاذ) بچوں کو مار سکتے ہیں یا نہیں، اور مار سکتے ہیں تو کتنا ؟؟؟ جواب عنایت فرمائیں
سائل : بندئہ خدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ:- فتاوی رضویہ میں ہے : زدن معلم کو دکان را وقت حاجت بقدر حاجت محض بغرض تنبیه و اصلاح و نصیحت سے تفرقہ اجرت وعدم اجرت رواست اما باید که بدست زنند نه بچوب و در کرتے برسه بار نیفزایند فی رد المحتار، لا يجوز ضرب ولد الحر بامرابيه اما المعلم فله ضربه المصلحة التعليم وقيده الطرسوسى بان يكون بغير آلة جارحة وبان لا يزيد على ثلث ضربات ورده الناظم بانه لا وجه له ويحتاج الى نقل و اقره الشارح قال الشرنبلالي والنقل فى كتاب الصلوة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة ولا يزيد على ثلث ضربات اهـ بتلخيص در جامع الصغار استروشنی است ذکر والدى رحمہ الله تعالى من صلوة الملتقط اذا بلغ الصبى عشر سنين يضرب لاجل الصلوة باليد لا بالخشب و لا يجاوز الثلث وكذا المعلم ليس له أن يجاوز الثلث قال صلى الله تعالي عليه وسلم لمرداس المعلم اياك ان تضرب فوق الثلث فانك اذا ضربت فوق الثلث اقتص الله منك۔
ضرورت پیش آنے پر بقدر حاجت تنبیہ اصلاح اور نصیحت کے لئے بلا تفریق اجرت وعدم اجرت استاد کا بدنی سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا جائز ہے مگر یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے، چنانچہ فتاوی شامی میں ہے کہ کسی آزاد بچے کو اس کے والد کے حکم سے مارنا جائز نہیں لیکن استاد تعلیمی مصلحت کے تحت پٹائی کر سکتا ہے۔ امام طرسوسی نے یہ قید لگائی ہے کہ مار پیٹ زخمی کر دینے والی نہ ہو اور تین ضربوں سے زائد بھی نہ ہو لیکن ناظم نے اس قید کو رد کر دیا کہ اس کی کوئی وجہ نہیں لہذا نقل کی ضرورت ہے اور شارح نے اس کو بر قرار رکھا علامہ شرنبلالی نے فرمایا نقل کتاب الصلوۃ میں ہے کہ چھوٹے بچے کو ہاتھ سے سزا دی جائے نہ کہ لاٹھی سے اور تین ضربوں سے تجاوز بھی نہ ہونے پائے اھـ بتلخيص ۔
جامع صغار استروشنی میں ہے : میرے والد رحمہ اللہ تعالیٰ نے بحث صلوة ملتقط میں ذکر فرمایا کہ جب بچے کی عمر دس سال ہو جائے تو نمازی بنانے کے لئے اسے ہاتھ سے سزا دی جائے لاٹھی سے نہیں اور تین مرتبہ سے تجاوز بھی نہ کیا جائے۔ یونہی استاد کے لئے روا نہیں کہ تین مرتبہ سے تجاوز کرے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے استاذ کی بچوں کو مارنے کے بارے میں فرمایا تین مرتبہ سے زائد ضربیں لگانے سے پرہیز کرو کیونکہ اگر تم تین مرتبہ سے زیادہ سزا دی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تم سے بدلہ لے گا۔(جلد 23 صفحہ 652)
وھو المولیٰ تعالیٰ اعلم
کتبہ: حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ، اتردیناج پور بنگال