راقم
الحروف:فقیرِ قادری، گدائے نوری، اسیرِ ازہری ،کلیم
رضاألقادری رضوی ازہری حفظه الله القوی(پاکستان)
خداوندا!
یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی
بھی عیّاری ہے، سُلطانی بھی عیّاری
چلیں آج
پھر بغیر تمہید کے ابتداء کرتے ہیں،
تو پیارے
سنی مسلمانوں!
بات یہ ہے کہ اس آزمائشی اور پر فتن دور میں،
سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، قلبی، ذہنی، اعصابی اور روحانی کمزوری اور پسپائی
کے بعد لوگوں کے پاس انکی سب سے قیمتی چیز ایک ایمان ہی بچا تھا۔ تو اسے لوٹنے کیلئے
لبرل ٹولے کے لٹیرے بھی بھیڑ کی شکل میں بھیڑئے بنکر اور بھی کئی بھیس بدل بدل کر
مختلف مواضع پر بہلا کر بہکانے کیلئے پھرتے رہتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیں کہ سرکشی کے
مواقع فراہم کرکے فراوانی دےکر اپنے پلید عزائم کی تکمیل سے طائفہ کو طاغوتی طریقے
پر لے جاتے ہیں۔ پھر ان نو تیار کردہ طواغیت کو سوشل میڈیا کے میدان میں مختلف خیرخواہ
شکل میں خونخوار بھیڑئے متعارف کرائے جاتے ہیں اور پھر وہاں جھوٹ کے جُھنڈ کے بھیڑئے
بیچاری بھولی بھالی بھیڑوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اور وہ بھینٹ ان قیمتی چیزوں کی
ہوتی ہے جسکے نقصان، بحران کا شکار آج پوری دنیا پر آشکار ہے۔
لیکن
ساتھیو! کچھ غور تو کرو کہ شیطان تو ہمارا کھلا دشمن ہے ہی جسکے وار کی پہچان ایک
عام مسلم بھی کر سکتا ہے کہ اگر وسوسہ آئے تو لا حول شریف پڑھ کر اسکو بھگایا
جائے۔ گمراہ کرنے کی کوشش کرے تو اسپر تعوّذ کا تیر برساکر اسکو دفع کیا جائے۔
لیکن وہی شیطان جب پارسائی کا پہناوا اور پیکر
بن کر، دِل رُبائی کا روپ دھار کر، مسیحائی مُورت میں آئے تب اسکی پہچان کون
کروائے!
خبردار!
اس خوش فہمی میں مت رہنا کہ اسکی شناخت آسان ہے! نہیں ہرگز نہیں، ہمارے لئے کب
آسان ہے! بلکہ اس کےلئے آسان ہے جسکا قلب سلیم ہے، جو ہجوم عصیاں سے خلوت نشین ہے،
جسکا دل نور ھدایت کا مکین ہے، جسکی روش مطابق دین متین ہے، جو حجر و فراق میں غمگین
ہے، جسکا جسم خوف خدا میں لرزہ و حزین ہے، جو نار جحیم سے پناہ گزین ہے۔
عزیز
مسلمانوں! یہ تو ہر طبقے میں مسلّمہ بات ہے کہ ان خرابیوں کا بنیادی سبب سوشل میڈیا
ہے۔ کیوںکہ
* انسان
اپنی زیست کا اکثر حصہ اب اسی پر صرف کرتا ہے۔
* شب و
روز اسی پر بسر کرتا ہے۔
* کاروبار
اور روزگار اسی سبب سہولت کار ہے۔
* ملازمت
کے متلاشی بھی یہاں مگن ہیں۔
* فروغ
افکار اور تعلیمی نظام کا انحصار بھی اسے جانا جاتا ہے۔
* اور
بےخبروں کیلئے خبرداری یہی موجودہ ذرائع ابلاغ کی فراوانی۔
* پھر ستم
یہ کہ مذہبی طبقے اور دینداروں کی تبلیغ بھی اسی سوشل میڈیا پر سمٹ کر رہ چکی ہے۔
اب آئیں
اس بات پر پھر اسکی آشنائی، پہچان اور اس سے احترازی سامان کیسے ممکن ہے!
* اول تو یہ
کہ پلیدی کبھی پیشاب سے پاک نہیں ہوسکتی۔
* دوم یہ
کہ اب اسکا بائیکاٹ بھی پائیدار نہیں رہا۔
* سوم یہ
کہ جنکا کام قوم و ملت کو شناسائی دینا تھا وہ خود ہی اس لت میں لتھڑے ہمنوائی ہیں۔
اب اس
سے بڑھ کر اور کیا کہا جائے کہ جو اقبال نے کہا:
اے
مسلماں! اپنے دل سے پوچھ مُلّا سے نہ پوچھ!
ہو گیا
الله کے بندوں سے کیوں خالی حرم؟
اس میڈیا
کے مینڈکوں کی تباہ کاریاں تو بہت ہیں لیکن ایک تمثیل بطور نمونہ بغرض تفہیم پیش
کرتا ہوں کہ:
جس قوم
کو ابھی بنیادی عقائد و ضروریات کا ہی نہیں معلوم اسکو ان لوگوں نے ایسے مسائل میں
الجھا رکھا ہے جو پیشتر ہی حل شدہ ہیں بلکہ جسپر راجح و مفتی بہ اقوال اور مذہب
مختار و اجماع منقول موجود ہے۔ اب اسمیں سوشل میڈیا کی منحوس صورت یوں متشکل ہوتی
ہے کہ:
* جو بیچارہ
ابھی عربی عبارتوں کے درست اعراب تک نہیں جانتا وہ YouTube وغیرہ پر اپنی علمی
پست قامت کا منظر پیش کرتا ہے۔
* جس
نابلد بلکہ نابالغ کو ابھی اپنے مذہب کے مأخذ و مراجع کا نہیں پتہ وہ بھی حضرتِ
علّام اور نائبِ امام، بنا بیٹھا ہوتا ہے۔
* اور پھر
رہبری تو دور کہیں جا ٹھہری نتیجہ بہت بھیانک نکلتا ہے کہ قوم آپس میں اختلافی
مسائل کا شکار بنتی مزید پستی میں چلی جاتی ہے اور خلاصی و فلاحی کا کنارہ دور
چھوڑ جاتی ہے۔
اسکے
بعد اب اسکا اندازہ ہر ذی شعور بآسانی لگا سکتا ہے کہ ان چینلوں کے چنگلوں سے دامن
چھڑانا کتنا ضروری ہے تاکہ سنیت کے چمن کو مزید مت اجاڑا جائے۔
آخری
گزارش: ان حقائق سے منہ چُرا کر یا منہ چِڑا کر انکاری ہونا در اصل جرم اقبالی ہے۔
دوستو!
کہنے لکھنے کو تو باتیں بہت ساری ہیں لیکن یہ سوچ کر اختتام کرتا ہوں کہ:
نِکل
گئے ہیں خِرد کی حدوں سے دیوانے،
اب اہلِ
ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے.
٭٭٭
بساطِ
بزم اُلٹ کر کہاں گیا ساقی،
فضا
خموش، سُبُو چُپ، اُداس پیمانے
٭٭٭
یہ کِس
کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا،
یہ کس کی
یاد میں سَر پھوڑتے ہیں دیوانے
٭٭٭
بھری
بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا،
مِری
نگاہ کو کیا ہو گیا خُدا جانے
٭٭٭
ہے کون
بر لبِ ساحل، کہ پیشوائی کو،
قدم
اُٹھائے بہ اندازِ موج، دریا نے
٭٭٭
تمام
شہر میں اِک درد آشنا نہ مِلا،
بسائے
اِس لئے اہلِ جُنوں نے ویرانے!
٭٭٭
نہ بایزید،
نہ شبلی، نہ اب جنید کوئی،
نہ اب و
سوز، نہ آہیں، نہ ہاؤ ہُو خانے۔
٭٭٭
خیال و
خواب کی صُورت بکھر گیا ماضی،
نہ
سلسلے نہ وہ قصّے نہ اب وہ افسانے
٭٭٭
نہ قدر
داں، نہ کوئی ہم زباں، نہ انساں دوست،
فضائے
شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے۔
٭٭٭
بدل گئے
ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ،
نہ وہ
شراب، نہ ساقی، نہ اَب وہ میخانے۔
٭٭٭
تمام
بند جُنوں توڑ بھی گیا، لیکن،
اَنَا
کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے۔
٭٭٭
یہ
انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا،
اُلجھ
رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے۔
٭٭٭
ہر ایک
اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے،
کوئی تو
ہو، جو مِرے دِل کا درد پہچانے۔
٭٭٭
نصِیرؔ
اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے،
گزر رہی
ہے جو دِل پر، وہ کوئی کیا جانے
٭٭٭
شکریہ!
والسلام۔مؤرخہ: ۱۶صفر۱۴۴۷ھ، بروز
پیر