✍️ قاضی مشتاق احمد رضوی نظامی( کرناٹک)
لگاتار
25 دنوں سےفلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،اسرائیلی فوج کے
ساتھ امریکہ اور اس کے ہمنوا ملک سب ملکر ،،حماس،، پر بے دریغ بمباری کرتے جارہے
ہیں،بے گناہ فلسطینی بچے
بوڑھے عورتوں مردوں کو مارا جارہا ہے،عالمی امن اور جنگ کےاصولوں کی دھجیاں اڑا دی
جارہی ہیں،ادھر سارے نام نہادمسلم ممالک فلسطینی عوام پر ہوتے ظلم و زیادتیوں کو
دیکھتے ہوئے خاموشی کا مظاہرہ کئے ہوئے ہیں،ایران، ترکی، لبنان، اور سعودی عرب
اپنی جھوٹی شان اور مسلمانوں کے تیئں جھوٹی ہمدردی جتلاتے ہوئے ایک دو مرتبہ
ازرائیل کو چتاؤنی دیتے ہوئے گیدڑوں کی طرح امریکہ اور ازرائیل سے ڈرکر ابھی تک
خاموش بیٹھے ہوئے ہیں،جبکہ ازرائیل کے اطراف و اکناف سوڈان، لبنان، ایران، ترکی،
سعودی عرب، عراق، عزبکستان، پاکستان، ایزبت، مصر، لیبہ، سیریہ، ترکی منستان،
افغانستان، یمن، اومان، یہ سارے کے سارے ملک اسلامی ہیں،ادھر اسرائیل کا صدر مملکت
،،بنجامن نتن یاہو،، اپنی طاقتور فوج کے ساتھ حماس کو ختم کرنے اور غازہ پر کلی
طور پر قبضہ کرنے کی قسم کھاتے ہوئے کامیابی کی اور بڑھ رہا ہے،فلسطین کے کئی
جگہوں پر اپنے کامیابی کے جھنڈے گاڑتے غازہ کے اور بڑھتا ہی جارہا ہے،ایسے میں اس
وقت کہاں ہیں وہ مسلم حکمران جو اپنے کو مسلمانوں کا ہمدرد
بتاتے ہیں؟کہاں ہیں وہ ترکی و سعودی عرب کے حاکم جو اپنے کو قبلئہ اول اور کعبہ
شریف کے پاسبان بتاتے ہیں؟کہاں ہیں وہ 56 مسلم ممالک کے سوکولڈ بادشاہ جو اپنے کو
مسلمانوں کا سچا ہمدرد بتاتے ہیں؟ فلسطینی عوام، بچے، بوڑھے، بیوہ عورتیں، ان
سب کو پکار رہے ہیں،مگر کوئی ان کی سننے والا نہیں ہے،یہاں ہند و پاک میں ہمیں ہمارے چند
مذہبی رہنما کہلانے والے صرف یہی بتاتے ہیں کہ ایک لاکھ درود پڑھ کر دعاء کرو،دس
لاکھ کسی آیت کی تلاوت کرکے فلسطین کے حق میں دعائیں کرو،مگر اب تلک ان حضرات نے
ہمیں جہاد اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کا صحیح مطلب نہیں بتا پایا،،
الا ماشاءاللہ ،،جب کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے پڑھا جائے تو ہمیں
بتایا گیا ہے کہ کفار یہود و نصارٰی کے ساتھ جہاد کب فرض ہوتا ہے؟کیسے
ان کے مظالم سے بچا جا سکتا ہے؟اور کیسے مسلمانوں کو بچایا جا سکتا ہے ؟جیسے ملک
میں امن و امان قائم کیا جا سکتا ہے؟کب مسلمانوں کو اک جُٹ ہو کر مظلوموں کی حمایت
میں علم جہاد بلند کرنا ہے؟ مگر افسوس!صد افسوس!فلسطینی عوام پر اسقدر ظلم و زیادتیاں ہوتی جارہی
ہیں،چھوٹے چھوٹے بچوں کا قتل
عام کیا جارہا ہے،ہاسپٹل اور مارکیٹوں پر بم برسائے جارہے ہیں،خورد و نوش کی
دوکانیں اور رہائش گاہیں مکمل طور پر زمین بوس ہوچکی ہیں،پھر بھی کسی پڑوسی مسلم
ملک کے کانوں پر جوں تک رینگتی دکھائی نہیں دے رہی ہے،سب کے سب احساسِ کمتری کا شکار
ہو چکے ہیں،خود ہم لوگ اور ہمارے اکثر مذہبی رہنما یہاں ہند و پاک میں بے حسی کے
شکار ہوکر رہ گئے ہیں،،،الا ماشاءاللہ ،،چند دردمندمحررین سوشیل میڈیا کا استعمال
کرتے ہوئے فلسطینی مظلوم عوام کے تیئں اپنے دل میں چھپے درد کا اظہار چند الفاظوں
سے کرنے کے علاؤہ کچھ اور تو کر پا نہیں رہے ہیں،اس سے یہی لگتا ہےکہ اس
وقت چند دردمندوں کے علاؤہ سب کے دلوں پر مُردگی چھائی ہوئی ہے،سب کے دل مردے نظر آرہے
ہیں،ہر کوئی اپنے بچے بچیوں کے شادی بیاہ اور گھر بار بنانے سجانے میں نفلی اسفار،
زیارات، عمرے وغیرہ کرنے میں مشغول ہیں،یہ تو ظاہر ہو ہی رہا ہے کہہمارے
چند مذہبی رہنما اور پیشو کہلانے والوں (الا ماشاءاللہ) کے پاس اس وقت دعاء،
نفلی عمرے حج و زیارات، بزرگوں کے مزارات پر غیر شرعی اعراس ڈھول باجے تاشے بجانے
کے علاؤہ کوئی اور کام رہ نہیں گیا ہے،ہمارے پاس کوئی ایسا طریقہ یا منسوبہ نہیں
ہے کہ جس وقت کفر ہم پر غالب آئے تو اس سے کیسے بچا جا سکے اور مسلمانوں کو کیسے
بچایا جا سکے!!!عالم اسلام کے اسلامی ممالک کے رہبروں اور حکمرانوں کی اس بے
بسی کو دیکھ کربس آخر میں یہی کہنا پڑ رہا ہےاس وقت دنیاء میں یہود ونصاریٰ کے
مقابل فلسطینی مسلمانوں کے علاؤہ باقی ملکوں کے مسلم حاکموں کے وجود کی کوئی
،،حقیقی اسلامی حیثیت،، باقی نہیں رہی،فلسطینی مسلمانوں کی حفاظت اس رب قدیر جل
جلالہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا،گرچہ اس کی رحمت ہم سے اور فلسطین کے مسلمانوں سے منہ موڑ لے تو بس
قیامت کا انتظار کریں !اور کم سے کم اپنے اعمال ایمان کے دائرے میں رہکر
اس قدر سدھار لیں کہ بروزِ حشر ہم اپنا اپنا حساب بارگاہِ خداوندی میں دے سکیں،فقط
والسلام